تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
اللہ ربّ العزت نے امت مسلمہ پر خاص احسان فر ماتے ہوئے عید الفطر اور عید الاضحی جیسے خوشی کے دو مقدس تہوار عطاء فرمائے ہیں جن کے آتے ہی ہر مسلمان کے دل میں خصوصی جوش اور ولولہ پیداہوجاتا ہے۔ عید الاضحی کے دن امت مسلمہ کے مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت کو زندہ کرتے ہیں۔ یوں توحضرت ابراہیم علیہ السلام کی ساری زندگی عظیم الشان قربانیوں سے آراستہ ہے مگر بحکم خداوندی اپنے لاڈلے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نازک و نرم خوبصورت نورانی گلے پر اپنے ہاتھ مبارک سے پوری قوت کیساتھ تیزدھار چھری کا چلانا ایسی لا مثال و منفرد قربانی ہے کہ تعمیل حکم و اطاعت خداوندی کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ اطاعت خداوندی کا یہ نرالا انداز کیوں کر وقوع پذیر ہوا ، بقول شاعر کہ
خدائے پاک نے خود ان کی ایسی تربیت کی تھی
شعور و فکر و دانائی کی وہ دولت انہیں دی تھی
خدا نے ہی انہیں بخشا تھا وہ ایثار کا جذبہ
خدا کے حکم پر دینے چلے بیٹے کا نذرانہ
خدا کے امتحان میں کامیاب و کامراں آئے
اسی باعث جہاں میں وہ خلیل اللہ کہلائے
عجیب منظر تھا جب باپ نے اپنے نو عمر فرزند سے پوچھا ، اے میرے بیٹے میں نے خواب میں دیکھا کہ میں تجھے ذبح کر رہاہوں ، بتا تیری کیا مرضی ہے ؟ ‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے یہ رائے اس لیے نہیں پوچھی کہ اگر بیٹے کی رائے ہو گی تو ایسا کروں گاورنہ میں اپنے بیٹے کو ذبح نہیں کروں گا۔ نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں۔ بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے رائے اس لیے پوچھی تھی کہ میری نبوت کا وارث اس آزمائش میں پورا اترتا ہے یا نہیں اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ اللہ کے حکم کے بارے میں بیٹے کا تصور کیا ہے؟
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی فرمابرداری دیکھئے ،وہ بیٹا بھی تو کوئی عام بیٹانہیں تھا ، وہ بھی آخر خلیل اللہ کے فرزند ارجمند تھا ۔ اگر باپ خلیل اللہ کے مرتبہ پر فائز تو بیٹے کے سر پر بھی ذبیح اللہ کا تاج سجنے والا تھا۔ کیونکہ آپ علیہ السلام ہی کی صلب اطہر سے آقائے دو جہاں ،تاجدارانبیاء،شفیع روزجزا، جناب حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ،اپنے نورمبین سے اس جہان کو دائمی روشنی سے منور کرنے والے تھے۔ اس لیے وارث نبوت نے بھی اطاعت کی حد کر دی۔آپ علیہ السلام نے اپنے باپ کے آگے سر کو جھکا دیا اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ ابا جا ن مجھ سے کیا جرم سر زد ہوا ہے ؟میری خطا کیا ہے؟ جو آپ مجھے موت کے حوالے کرنے جا رہے ہیں، بلکہ قربان جاؤں! اس بیٹے پر جس نے نہایت عاجزی وانکساری سے اپنے باپ کے آگے گردن جھکاتے ہوئے جوکلمات اپنی زبان سے ارشاد فرمائے وہ قیامت تک نسل انسانی کے لیے مشعل راہ بن گئے۔ چنانچہ آپ نے ارشاد فرمایا ’’اس (بیٹے) نے کہااے ابا جان!آپ وہی کیجئے جس کا آپ کو حکم دیا گیاہے، انشاء اللہ ! آپ مجھے عنقریب صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ ( سورۃ الصفّٰت آیت 102 )‘‘ اے اباجان! میں روؤں گا نہیں اور نہ ہی میں چلاؤں گا اور نہ ہی آپ کو اس کام سے منع کروں گا،اب آپ چلئے اور اس حکم کی تعمیل میں دیر نہ کیجئے۔انشاء اللہ ! آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔
یہ فیضان نظر تھا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
اب آگے بڑھ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اللہ تعالی کے عشق میں اپنی گردن مبارک زمین پر رکھ دی ، اور باپ نے چھری کو چلانا شروع کیا تو آسمان دنیا کے فرشتے پہلی دفعہ اطاعت خداوندی اور تسلیم و رضا کا یہ عالی شان منظر دیکھ کر ششدر رہ گئے ، قریب تھا کہ چھری چل جاتی ، لیکن اللہ کریم کی طرف سے ندا آئی ، اے ابراہیم تم نے خواب کو سچ کر دکھایا ، یہ ایک بڑی آزمائش تھی تم اس میں کامیاب ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے جنت سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے قربانی کیلئے ایک دنبہ بھیج دیا ، اور یوں یہ سنت ابراہیمی قیامت تک ہر صاحب استطاعت پر واجب کردی گئی ۔
وہ قربانی رہ حق میں جو اسماعیل نے دی تھی
مثال اس کی ہمیں تاریخ عالم میں نہیں ملتی
خدا نے اس کی قربانی کو خود ناز سے دیکھا
ذبیح اللہ کا اعزاز عالیٰ پھر انہیں بخشا
حضر ت زید بن ارقم رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، یہ قربانی کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، یہ تمہارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے ، انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (تمہارا فائدہ یہ ہے کہ تمہیں قربانی کے جانور کے ) ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی۔ انہوں نے پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، اون کا کیا حکم ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، اون کے ہر بال کے عوض میں بھی ایک نیکی ملے گی (مشکوۃ شریف) ۔ حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور ہر سال قربانی کی (مشکوٰۃ شریف) حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ قربانی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک قربانی کا خون بہانے سے بڑھ کر محبوب اور پسندیدہ نہیں (ترمذی ، ابن ماجہ ) ۔ ہمیں چاہئے کہ عید الاضحی کے ایام میں پورے ذوق وشوق کے ساتھ سنت ابراہیمی زندہ کرتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربانی کریں، اور عید الاضحی کی خوشیوں میں غرباء و مساکین اور محتاجوں کو بھی شامل کریں، اور رسمی رکھ رکھاؤ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے غریب لوگوں کو بھی گلے سے لگائیں گے کیونکہ سچی خوشی تو وہی ہے جو آپ کو ردعمل کے طور پر ملے اور جب کسی دکھی، غریب ، کمزور کو سینے سے لگایا جاتا ہے تو اس سے یقیناًمسرتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تمام اہل اسلام کی قربانیوں اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے ، آمین۔
Load/Hide Comments